چینی ساختہ مصنوعی ذہانت (AI) ماڈل ڈیپ سیک نے ریلیز کے بعد ایپل اسٹور پر ڈاؤن لوڈز کی دوڑ میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا جس سے سرمایہ کار حیرت زدہ اور کچھ ٹیکنالوجی کمپنیوں کے اسٹاکس متاثر ہوئے۔
یہ ایپ 20 جنوری کو لانچ کی گئی اور جلد ہی اے آئی ماہرین کی توجہ کا مرکز بنی جس کے بعد اس نے پوری ٹیک انڈسٹری اور دنیا کی نظر میں جگہ بنائی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے امریکی کمپنیوں کے لیے ایک “الارم بیل” قرار دیا اور زور دیا کہ انہیں “مقابلہ جیتنے” پر توجہ دینی چاہیے۔
“ڈیپ سیک” کی خاصیت یہ ہے کہ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اسے انڈسٹری کے بڑے ماڈلز جیسے اوپن اے آئی کے مقابلے میں بہت کم لاگت پر بنایا گیا ہے کیونکہ یہ جدید ترین چپس کے بجائے کم وسائل استعمال کرتا ہے۔ اسی وجہ سے دنیا کے سب سے بڑے چپ ساز ادارے Nvidia کو پیر کے روز 600 ارب ڈالر (482 ارب پاؤنڈ) کی مارکیٹ ویلیو میں کمی کا سامنا کرنا پڑا جو امریکی تاریخ کی سب سے بڑی ایک روزہ نقصان تھی۔
“ڈیپ سیک” نے واشنگٹن کی کوششوں پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں جو بیجنگ کی ٹیکنالوجی میں برتری کے حصول کو محدود کرنے کے لیے سخت پابندیاں لگا رہا ہے جن میں جدید چپس کی برآمد پر پابندی بھی شامل ہے۔ اس کے باوجود بیجنگ نے مصنوعی ذہانت کو اپنی ترجیحات میں شامل کرتے ہوئے زور دیا ہے، جبکہ صدر شی جن پنگ نے اے آئی کو اہم قومی ہدف قرار دیا ہے۔
“ڈیپ سیک” جیسی نئی کمپنیوں کا کردار اس وقت اور زیادہ اہم ہو گیا ہے جب چین روایتی مینوفیکچرنگ جیسے کپڑوں اور فرنیچر سے نکل کر جدید ٹیکنالوجی، الیکٹرک گاڑیوں اور اے آئی کی طرف بڑھ رہا ہے۔