امریکا میں دو صدیوں سے زائد عرصے سے رائج ایک سینٹ کے سکے (پینی) کو بالآخر بوجھ قرار دیتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے ختم کرنے کے لیے محکمہ خزانہ کو نئے احکامات جاری کر دیے ہیں۔
صدر ٹرمپ اپنی دوسری مدت کے دوران مختلف فیصلوں کے باعث مسلسل خبروں میں رہ رہے ہیں، اب انھوں نے اعلان کیا ہے کہ ایک سینٹ کا سکہ بنانا امریکی خزانے پر اضافی بوجھ ڈال رہا ہے۔ ان کے مطابق اس سکے کو بنانے میں اس کی اصل مالیت سے کہیں زیادہ لاگت آتی ہےجس کی وجہ سے قومی خزانے کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’’ٹروتھ سوشل‘‘ پر جاری اپنی پوسٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا، ’’ایک طویل عرصے سے ایک سینٹ کے سکے کی تیاری پر دو سینٹ سے زیادہ خرچ ہو رہے ہیں اور یہ بالکل ناقابل قبول ہے۔‘‘ انہوں نے محکمہ خزانہ کے سیکریٹری کو فوری طور پر نئے سکے بنانے کا عمل روکنے کی ہدایت بھی دی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک سینٹ کے سکے کو ختم کرنے کے ارادے کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا لیکن حالیہ دنوں میں ایلون مسک کی ایک سوشل میڈیا پوسٹ نے اس معاملے کو خوب اجاگر کیاہےیاد رہے کہ ایلون مسک نے ’’ایکس‘‘ پر اپنی پوسٹ میں سوال اٹھایا تھا کہ امریکی معیشت پر ایک پینی کا سکہ کس قدر نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔ امریکی ٹکسال کی رپورٹ کے مطابق مالی سال 2024 کے دوران جو 30 ستمبر کو ختم ہوا،اس سال تقریباً 3 ارب 20 کروڑ ایک سینٹ کے سکے بنانے پر 8 کروڑ 53 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا۔ حیران کن طور پرایک سینٹ کا سکہ بنانے پر پونے چار سینٹ کا خرچ آیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وادی نیلم کی تازہ ترین سڑکوں کی صورتحال: برفباری اور بارش کا سلسلہ جاری
واضح رہے کہ امریکا میں پہلی بار ایک سینٹ کے سکے کا اجرا 1793 میں ہوا تھا اور یہ سکے امریکی معیشت کا ایک تاریخی حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ ٹرمپ کے اس فیصلے کے بعد پچھلے جاری کیے گئے سکے مارکیٹ میں موجود رہیں گےلیکن نئے سکے نہیں بنائے جائیں گے۔ ٹرمپ کے اس فیصلے نے معیشت کے ماہرین اور عوامی حلقوں میں بحث چھیڑ دی ہے کہ آیا یہ اقدام عملی طور پر ملک کے مالی وسائل بچانے میں مددگار ثابت ہوگا یا یہ ان کی تاریخ کا حصہ ہے۔